اسرائیل جنگ کی آڑ میں فلسطینی علاقوں پر قبضہ کرنے کی جنگی مہم جاری رکھا ہوا ہے

بی،بی،سی اردو کے مطابق اسرائیل کی جانب سے بتیر میں ایک نئی یہودی بستی کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے بعد سے اس علاقے میں صدیوں سے آباد فلسطینیوں سے اُن کی زمینوں پر قبضے کی خبریں آرہی ہیں۔بتیر کے ایک رہائشی غسان اولیان کا کہنا ہے کہ ’وہ ہماری تباہی پر اپنے خوابوں کی تعمیر کے لیے ہماری زمین ہم سے ہی چھین رہے ہیں۔یونیسکو کا اس صورتحال پر کہنا ہے کہ اسے بتیر کے ارد گرد آباد کاروں کے منصوبوں پر تشویش ہے۔اولیان کہتے ہیں کہ ’وہ (اسرائیلی) بین الاقوامی قانون، مقامی قانون اور یہاں تک کہ خدا کے قانون کی پرواہ بھی نہیں کر رہے۔


گذشتہ ہفتے مُلک میں انٹیلی جنس کے سربراہ رونن بار نے اسرائیل کے وزرا کو خط لکھ کر متنبہ کیا تھا کہ مغربی کنارے میں یہودی انتہا پسند فلسطینیوں کے خلاف ’دہشت گردی‘ کی کارروائیاں میں ملوث ہیں جس کی وجہ سے مُلک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود یہودی آباکاری اور ان کی جانب سے بنائی جانے والی بستیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیلی حکومت میں موجود انتہا پسندوں کا دعویٰ ہے کہ یہ تبدیلیاں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کو روکنے میں مدد فراہم کریں گی۔
تاہم اس ساری صورتحال میں بعض حلقوں کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل اپنے مقاصد کے حصول کے لیے غزہ میں جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔بستیوں کی تعمیر پر نظر رکھنے والی اسرائیلی تنظیم ’پیس ناؤ‘ سے تعلق رکھنے والے یوناتان میزراہی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی انتہا پسند پہلے سے کشیدہ اور غیر مستحکم صورت حال کو مزید خراب کر رہے ہیں۔جنگ شروع ہونے کے بعد سے مغربی کنارے میں فلسطینی شہریوں کے خلاف آبادکاروں کے تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔

مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے ان علاقوں میں رہنے والے فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے واقعات میں گذشتہ 10 ماہ کے دوران اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق اُن کے پاس تقریبا 1270 حملوں کا اندراج کیا گیا ہے جبکہ سنہ 2022 میں یہ تعداد 856 تھی۔
اسرائیل کی انسانی حقوق کی تنظیم ’بتسیلم‘ کے مطابق اسی عرصے کے دوران اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں کو مغربی کنارے کے کم از کم 18 دیہاتوں سے بے دخل کیا ہے جو اسرائیل اور اردن کے درمیان فلسطینی علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضہ کر لیا تھا اور اس کے بعد سے اس پر اُس کا قبضہ ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق 7 اکتوبر سے اگست 2024 کے درمیان مغربی کنارے میں 589 فلسطینی ہلاک ہوئے جن میں سے کم از کم 570 اسرائیلی افواج اور کم از کم 11 آباد کاروں کے ہاتھوں مارے گئے۔

مغربی کنارے کی بہت سی بستیوں کو اسرائیلی حکومت کی جانب سے قانونی حمایت حاصل ہے۔ تاہم ان علاقوں میں کچھ آباد کار ایسے بھی ہیں کہ جنھیں اسرائیلی قانون کے تحت غیر قانونی بھی قرار دیا گیا ہے۔ تاہم اس سب کے باوجود مقبوضہ مغربی کنارے اور خصوصاً جنین کے علاقے میں یہودی انتہا پسند مقامی لوگوں کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔

جولائی میں جب اقوام متحدہ کی اعلیٰ ترین عدالت نے پہلی بار مشرقی یروشلم سمیت مغربی کنارے پر اسرائیل کے قبضے کو غیر قانونی قرار دیا تو یہ کہا گیا تھا کہ ’ملک کو آبادکاری کی تمام سرگرمیاں روک دینی چاہیں اور جلد از جلد اس جگہ سے نکل جانا چاہیے یا اسے خالی کر دینا چاہیے۔‘

اسرائیل کے مغربی اتحادی بارہا بستیوں کو امن کی راہ میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں۔ تاہم اسرائیل کی جانب سے اس بیانیے کو مسترد کرتے ہوئے ہمیشہ سے یہی کہا گیا ہے کہ ’یہودی اپنی سرزمین پر قابض نہیں ہیں۔‘

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *