قرآن کے ساتھ ہمارا رویہ افسوناک : قلم کار غلام نبی کشافی سری نگر کشمیر

میں نے کچھ عرصہ پہلے ایک ڈرامائی نوعیت کی ایک ویڈیو دیکھی تھی ، اس کا خلاصہ میں یہاں پر اپنے الفاظ میں پیش کرتاہوں ۔

ایک ٹیچر کلاس روم میں آکر بچوں سے کہتا ہے ۔

آج مجھے ایک ضروری اناؤنسمینٹ کرنی تھی کہ حال ہی میں ہمارے اس سکول میں ایک لائبریری کی اوپننگ

ہوئی ہے ، تو بچو ! آپ کے گھر میں ایسی کتابیں لازمی ہوں گی ، جو پڑھی نہیں جاتی ہوں گی ، تو کل آپ ان کتابوں کو اپنے ساتھ لاکر اس لائیبریری میں جمع کرسکتے ہیں ، تاکہ ان کتابوں کو دوسرے لوگ بھی پڑھ سکیں گے ۔
اگلے دن جب بچے سکول آتے ہیں ، اور ٹیچر بھی کلاس میں آجاتا ہے ، تو وہ بچوں سے کل کی بات کو یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے ۔

ایک ٹیچر کلاس روم میں آکر بچوں سے کہتا ہے ۔

اگلے دن جب بچے سکول آتے ہیں ، اور ٹیچر بھی کلاس میں آجاتا ہے ، تو وہ بچوں سے کل کی بات کو یاد دلاتے ہوئے کہتا ہے ۔

بچو ! کیا آپ سب نے اپنے ساتھ کتابیں لائی ہیں ؟ تو سب بچے بلند آواز میں کہتے ہیں ، یس سر

پھر ٹیچر ہر بچے کے پاس جاتا ہے ، تو ہر بچہ اپنے ہاتھ میں صرف قرآن مجید لیکر ہوتا ہے ، تو ٹیچر بچوں سے بڑی حیرانی سے پوچھتا ہے کہ کیا آپ سب یہی ایک کتاب لائے ہیں

تو ایک بچہ کھڑا ہوکر کہتا ہے کہ سر ! یہی وہ کتاب ہے ، جو ہمارے گھروں میں رکھی تو جاتی ہے ، مگر پڑھی نہیں جاتی ۔

اس ویڈیو کو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے ، اور میں سکتے میں آگیا ، اور اس سوچ میں پڑ گیا کہ آج تقریباً ہر مسلمان کے گھر کی یہی کہانی ہے ، اور وہاں ہر طرح کی چیز پڑھی جاتی ہیں ، مگر گھر میں قرآن رکھنے کے باوجود اسے پوری زندگی میں ایک بار بھی سوچ سمجھ کر پڑھنے کی کبھی توفیق حاصل نہیں ہوتی ، تو اس صورت حال پر غور کرتے ہوئے مجھے قرآن مجید کی یہ آیت یاد آگئی ۔

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا هذَا الۡقُرۡاٰنَ مَهجُوۡرًا

( الفرقان : 30 )

اور ( قیامت کے دن) رسول کہے گا کہ اے میرے رب ، میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا

میں اکثر دیکھتا ہوں کہ جب بھی میں قرآن مجید کے بارے میں ہماری لاتعلقی اور اس سے بیزاری کے حوالے سے مضامین لکھتا ہوں ، تو بہت سے قارئین علامہ اقبال کے چند چنیدہ اشعار چسپاں کرنے میں بڑی سبقت دکھاتے ہیں ، لیکن یہ ایک غیر سنجیدہ طرز فکر و عمل ہوتا ہے ، کیونکہ مضمون کا مقصد قرآن مجید پڑھنے کی طرف ترغیب دینا ہوتا ہے ، نہ کہ خیالات کا تبادلہ کرنا ہوتا ہے ، لیکن جو شخص مضمون کو سنجیدگی کے ساتھ پڑھے گا ، اور اپنا محاسبہ کرے گا ، تو وہ اس مضمون کے نیچے اپنے کمنٹ میں اس عہد کا اقرار کرے گا کہ اب میں دنیا کی ہر کتاب اور ہر دستور سے پہلے اور آگے بڑھ کر قرآن کو غور و فکر کے ساتھ پڑھنے اور سمجھنے کو ترجیح دوں گا ۔

اس دنیا میں قرآن ہی وہ واحد کتاب ہے ، جو بنی نوع انسان کو صحیح اور سیدھی راہ دکھاتا ہے ، جیساکہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے ۔

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ يَـهْدِىْ لِلَّتِىْ هِىَ اَقْوَمُ وَيُبَشِّـرُ الْمُؤْمِنِيْنَ الَّـذِيْنَ يَعْمَلُوْنَ الصَّالِحَاتِ اَنَّ لَـهُـمْ اَجْرًا كَبِيْـرًا ۔

( بنی اسرائیل : 9)

بیشک یہ قرآن وہ راہ دکھاتا ہے، جو سب سے سیدھی ہے ، اور ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے ہیں ، اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لئے بڑا اجر ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم سب قرآن مجید کے ساتھ اپنا ایمانی و عملی رشتہ منقطع کرنے کے خود ذمہ دار ہیں ، کیونکہ ہم اپنے گھروں میں قرآن مجید کو تو رکھتے ہیں ، مگر افسوس کہ اسے کبھی غور و فکر کے ساتھ پڑھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ، اور المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو بھی اس انقلابی ، الہامی اور وحی پر مبنی کتاب سے دور رکھتے ہیں ، اور اس طرح ہم دنیا کی محض چند روزہ زندگی کی تعمیر و ترقی کے خواب دیکھتے ہوئے اپنی آخرت کی زندگی کو ۔۔ویران اور برباد کرکے رکھ دیتے ہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *