جماعت اسلامی جموں وکشمیر 35 سال بعد مین اسٹریم سیاست میں کیوں شامل ہوئی ؟

جماعت اسلامی جموں و کشمیر کا مسلسل حکومتی قدغن اور پابندی کے باوجوداسمبلی الیکشنوں میں حصہ لینا کشمیر میں گرم ترین موضوع بن چکا ہے جس کی وجہ اس کا ماضی میں الیکشن بائیکاٹ کی حمایت کرنا قراردیا جاتا ہے ۔جماعت اسلامی گذشتہ چار دہائیوں سے الیکشن سیاست سے دور رہی مگر اب نریندر مودی حکومت کا اس پر شدید تریب پابندیوں نے جماعت میں ایک طرح کا بحران پیدا کردیا ہے اور نئی نوجوان نسلیں بندوق اور ہڑتالی سیاست سے تنگ آچکی ہے اور وہ جماعت اسلامی کی اعلیٰ ترین قیادت پر شدید دباؤ ڈال رہی تھی کہ جماعت اپنی پالیسی میں بنیاد تبدیلی لائے دوسری جانب سیکورٹی ایجنسیز کی بھی یہی خواہش تھی کہ جماعت ”اپنی سخت گیر پالیسیوں”کو ترک کرکے ”مین اسٹریم سیاست ”میں شامل ہو جائے اور جماعت اسلامی آخر کار طویل غور و خوض شدید تنقید اور دباؤ کے باوجود ”مین اسٹریم سیاست” میں شامل ہو چکی ہے ۔

جماعت اسلامی جموں و کشمیر  ہی نہیں بلکہ آزادی پسند طبقہ میں بھی طویل مدت سے  ایک خوفناک مایوسی چھائی ہوئی ہے جس کے بہت سارے عوامل ضرور ہیں مگر انتہائی اور بنیادی عامل اور سبب پاکستان کی کشمیری مسلمانوں کی تئیں اپنائی گئی ”منافقانہ پالیسی” ہے جس میں ہر ہفتہ ”ضرورت کے مطابق ”رنگ تبدیل ہو جاتے ہیں ۔جہاں ایک طرف کشمیری قوم پاکستان کے متعلق سید علی گیلانی جیسے پاکستان نوازقدآور   لیڈروں کے ذریعے بیان کردہ تعریفوں سے یہ سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کشمیریوں کے لئے آخری حد تک جا ئے گا وہی تنتیس سالہ طویل تجربات سے کشمیریوں کو معلوم ہوا کہ پاکستان صرف ایک ”امریکن کالونی ”ہے اور کچھ بھی نہیں ۔

کشمیر میں ایک احساس یہ بھی جنم لینے لگا کہ آزادی کے نام پر جو قربانیاں دی جاتی ہیں ان کا حاصل کیا ہے ؟کیا ہم صرف اپنی نئی نسلیں ایک ایسی جنگ میں جھونک کر ختم کردیں جس کے لئے نہ کوئی مضبوط لیڈرشپ موجود ہے اور نہ روڑ میپ۔پنتیس سال کی طویل جنگ کے بعد جب اس پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جاتی ہے تو ایک لاکھ نوجوانوں کے کٹے  سروں کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا ہے۔اور بقول ہمارے ایک دانشور دوست کے ”جو لیڈر شپ 1987کی کوکھ سے نکلی وہ واعظین اور شعلہ بیان مقررین کا ایک ٹولا تھا نہ کہ دوراندیش سیاست کار لیڈر شپ” !اور اگر کبھی کسی نے جرات کی بھی تو اس کو خود ساختہ اسلام پسندوں نے ”ہندوستانی ایجنٹ”قرار دیکر ”نامعلوم بندوق برداروں” کے ذریعے قتل کروادیاجس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پوری تحریک جمود پسند افراد کے ہتھے چڑھ گئی ۔جماعت اسلامی انہی بے شمار وجوہات کی وجہ سے طویل مدت تک تذبذب کی شکار رہی کہ موجودہ تبدیل ہورہی دنیا میں ہمیں کیا کرنا چاہیے یہاں تک کہ سید علی گیلانی کے انتقال کے بعد وہ مین اسٹریم سیاست کے آپشنز پر غور کرنے لگے اور آخر کار جماعت اسلامی جموں و کشمیر اپنے نام کے برعکس آزاد امیدواروں کے ساتھ الیکشن میں شامل ہوگئی اگر چہ اس الیکشن میں ان کے لئے کوئی سیٹ جیتنا ممکن نہیں ہے مگر یہ ایک نئی شروعات ضرور ہے جس کی ہر سطح پر ۔حوصلہ افزائی کرنی چاہیے (قلم کار : مسرور احمد سری نگر)

(نوٹ : ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے )

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *