بائیڈن کاغزہ جنگ بندی سے متعلق حتمی معاہدے پر غور،اب جنگ بندی پر نیتن یاہو کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوگی

ایک جانب غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائر بندی کے لیے وساطت کار “آخری سمجھوتے” پر غور کر رہے ہیں تو دوسری جانب اسرائیل میں وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے خلاف غصے کی لہر میں شدت آ رہی ہے۔ ان پر قیدیوں کے تبادلے کے سمجھوتے میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے بالخصوص دو روز قبل غزہ میں 6 اسرائیلی یرغمالیوں کی لاشیں سامنے آنے کے بعد !

امریکی وائٹ ہاؤس نے پیر کے روز واضح کیا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے حتمی سمجھوتے کے حوالے سے حکمت عملی متعین کرنے کے لیے قومی سلامتی کی ٹیم کے ساتھ اجلاس منعقد کیا۔ اجلاس میں یرغمالیوں کی رہائی یقینی بنانے کے لیے جاری کوششوں میں آئندہ کے اقدامات زیر بحث آئے جن میں دونوں وساطت کار قطر اور مصر کے ساتھ مشاورت جاری رکھنا شامل ہے

و ائٹ ہاؤس سے پیٹسبرگ روانہ ہونے سے پہلے بائیڈن نے باور کرایا کہ نیتن یاہو قیدیوں کے تبادلے کا سمجھوتا طے پانے کے لیے کافی کوششیں نہیں کر رہے ہیں۔ بائیڈن نے واضح کیا کہ “ہم نیتن یاہو کے ساتھ مذاکرات نہیں کر رہے ہیں بلکہ میں مصر اور قطر میں اپنے ہم منصبوں کے ساتھ بات چیت کر رہا ہوں”۔

امریکی نیوز ویب سائٹ axios کے مطابق یہ اس جانب اشارہ ہے کہ امریکی انتظامیہ کی جانب سے پیش کردہ سابقہ حتمی تجویز اسرائیل کے ساتھ مزید مشاورت کے بغیر مصر اور قطر کے سامنے پیش کی جائے گی۔

نیتن یاہو نے گذشتہ روز یہ عزم دہرایا تھا کہ اسرائیلی فوج فلاڈلفیا (صلاح الدین) راہ داری سے باہر نہیں جائے گی۔ یہ مصر کے ساتھ غزہ کی پٹی کی جنوبی سرحد پر پھیلی 14.5 کلو میٹر طویل ایک تنگ پٹی ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق اس حوالے سے کسی دباؤ میں نہیں آیا جائے گا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر دفاع یوآو گیلنٹ نے مذکورہ راہ داری پر کنٹرول برقرار رکھنے کے نیتن یاہو کے مطالبے کے بارے میں کہا ہے کہ “یہ ایک غیر ضروری قید ہے جو ہم نے خود پر مسلط کر لی ہے”۔ گیلنٹ نے خبردار کیا کہ یرغمالیوں کی جانوں پر فلاڈلفیا راہ داری کو ترجیح دینا یہ اخلاقی طور پر شرم ناک ہے۔

ادھر اسرائیلی مظاہرین نے پیر کو مسلسل دوسرے روز سڑکوں پر آ کر احتجاج کیا۔ ملک کی سب سے بڑی ورکر یونین نے حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عام ہڑتال کی کال دی۔

نیویارک میں فلسطین کے حامی اور اسرائیل کے لیے امریکی سپورٹ کے مخالف ہزاروں افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *